توحیدپرستی،مسلم سکھ کی مشترکہ میراث

“اوبھرا گامیاتو تے آزاد ہوگیاپر اسی تے ہمیشہ لئی غلام ہوگئے ، اج اسی اپنے پرکھاں اگے بڑے شرمندہ ہاں”۔(او بھائی گامیا”غلام محمد”تم تو آزاد ہو گئے لیکن ہم ہمیشہ کیلئے غلام ہو گئے ہیں اوراپنے بزرگوں سے شرمندہ ہیں)۔یہ رقت آمیز منظربیس سال کے بعد میری آنکھوں کے سامنے آج پھر تازہ ہو گیا جس نے ہر دیکھنے والے کو آبدیدہ کردیا تھا جب سارا گاؤں دودیرینہ دوستوں بابا غلام محمد اوربابا ہرنام سنگھ کی نہ رکنے والی آہ وزاری اور سسکیوں کے ساتھ سفید داڑھیوں کو تر کرتے ہوئے بے اختیاربہتے آنسوؤں کو دیکھ رہاتھا۔یہ دونوں دوست قیام ِ پاکستان کے۷۰سالوں کے بعد پہلی مرتبہ مل رہے تھے اور ہرنام سنگھ اور بابا غلام محمداس پیرانہ سالی میں ایک دوسرے کو اس طرح مل رہے تھے جیسے ایک دوسرے کے اندر ضم ہو جائیں گے۔مسلم سکھ دوستی کی اس مشترکہ میراث کو ظالم طاقتوں نے جداتو کردیالیکن ان کی محبت والفت کوسات دہائیوں کافراق اور مضبوط کر دے گا،اس کی کسی کوبھی توقع نہ تھی۔

سکھ مذہب کے بانی اور پہلے گرو”بابا نانک”۱۵/اپریل۱۴۶۹ءلاہوراورشیخوپورہ کے وسط ایک گاؤں بھوئے دی تلونڈی (موجودہ ننکانہ شریف) میں ایک کھتری نسل کے ہندو کلیان چاندداس بیدی” جو ”کالو مٹھا”کے نام سے مشہورتھے،کے گھرمیں پیداہوئے ۔ اس وقت ہندوستان پر سلطان لودھی کی حکومت تھی۔ بابا گرونانک کے والد” علاقے کے ایک مسلمان جاگیردار رائے بلوار بھٹی کے ہاں پٹواری تھے ۔ سکھوں کے ہاں نومبر کے مہینے میں چوہدویں کے چاند کی رات کو ان کا جشن پیدائش پر”اکاش دیواس” منایا جاتا ہے،اس لحاظ سے ہر سال یہ تاریخ تبدیل ہو جاتی ہے چنانچہ ا س سال۲۰۱۷ء کو یہ تاریخ ٢٨نومبر کو آئی جسے دنیا بھر کے ہزاروں سکھوں نے بالخصوص ننکانہ پاکستان اور بالعموم ساری دنیامیں بڑی دھوم دھام سے منایا۔ہمیشہ کی طرح پاکستانی حکومت کے علاوہ پاکستانی عوام نے دل کھول کر ان سکھوں کی خدمت میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔

 بابا گرونانک کابچپن ان کی ہمشیرہ کے سسرال میں گزرا۔ان کی ہمشیرہ کانام ”بے بے نانکی” تھا۔ سکھ روایات کے مطابق پانچ سال کی عمر سے ہی بابا جی مذہبی کہانیوں میں بہت زیادہ دلچسپی لیتے تھے۔ان کے والد نے انہیں سات سال کی عمر میں روایتی تعلیم کے لیے اسکول میں داخل کروا دیا۔ فطری ذہانت کے باعث بہت جلد اپنے ہم جولیوں سے آگے نکل گئے۔نو سال کی عمر میں جب پروہت نے ایک مذہبی تقریب میں جانونامی دھاگا پہناناچاہاتو انہوں نے اس رسم کو اداکرنے سے انکار کردیاگویاان کے اندرتوحید کی ایسی کوئی کرن چھپی ہوئی تھی جس نے ان کو ایسے انکار کی طاقت فراہم کی۔اپنی ذہانت کے بل بوتے پرسنسکرت کے علاوہ عربی اورفارسی پران کومکمل عبور حاصل تھا۔بابا کے بہنوئی لاہورمیں گورنرکے ہاں ناظم جائدادکی حیثیت سے ملازم تھے، سرکاری امور کی ادائیگی میں بابا جی اپنے بہنوئی کاہاتھ بھی بٹاتے تھے۔بابا گرونانک کے اس مذہبی رحجان نے سب سے پہلے ان کی ہمشیرہ ”بے بے نانکی”کواس قدر متاثر کیا کہ انہوں نے بابا گرونانک کواپناروحانی پیشواتسلیم کرلیا۔

باباگرونانک کا یہ بچپن سے معمول تھا کہ وہ سورج نکلنے سے قبل گھر کے قریب ندی کے ٹھنڈے پانی میں اترجاتے اوروہاں خدائے واحد کی حمدبیان کرتے تھے۔سکھ روایات کے مطابق۱۴۹۹ء تیس سال کی عمر میں بابا جی نے گاؤں کے قریب ”کالی بین”ندی میں ایک گہرا غوطہ لگایااورجب کافی دیر تک اپنے دوستوں کے پکارنے پر بھی پانی کی سطح پر نہ آئے تو ان کے دوستوں کوبڑی تشویش ہوئی۔گاؤں میں موجود دولت نامی مسلمان غوطہ خور نے ندی کاوہ خاص حصہ چھان مارا لیکن بابا جی کا کوئی سرغ نہ مل سکا۔گاؤں والوں کو بابا جی کے ڈوب جانے کا قطعی یقین ہوگیا لیکن تین دن کے بعد بابا جی اچانک اپنے گھر لوٹ آئے لیکن اپنے غائب ہونے کے بارے میں ایک دن مکمل خاموش رہے۔اگلے دن لوگوں کے بے انتہا اصرار پر اپنی خاموشی توڑتے ہوئے بولے:

 “نہ کوئی مسلمان ہے اور نہ ہی کوئی ہندوہے،تو پھرمیں کس کے راستے پر چلوں؟میں تو بس خدا کے راستے پر چلوں گاجو نہ مسلمان ہے نہ ہندوہے”۔ انہوں نے اپنے غائب ہونے کی بابت یہ بھی بتایا کہ ان تین دنوں میں انہیں خداکے دربار میں لے جایاگیاجہاں انہیں” امرت”خدائے واحد کی محبت کا جام پلایا گیاجہاں انعام کے طور پرخدانے اپنی رحمتوں اوربالا دستی کا وعدہ فرمایا۔خدا نے اسی توحید کے پیغام پر عمل کرنے اوردوسروں کو پہنچانے کا حکم بھی دیا، جس کے بعد بابا جی نے فوری طورپراپنی کل جمع پونجی غریبوں میں تقسیم کردی اوراپنے بہت ہی قریبی دو مسلمان دوستوں ”بالا مطرب اورمردانہ” کے ہمراہ اسی توحیدی عقائد کی ترویج کیلئے گاؤں چھوڑ کرایک لمبے سفر پر روانہ ہو گئے۔

سکھ روایات کے مطابق بابا گرو نانک کے پہلے چار طویل سفروں (اداسی)میں بلا شبہ ہزاروں میل کی طویل مسافت میں ”توحید” یعنی خدائے واحد کے سچے پیغام کا درس مقصود رہا ۔ بنگال سے آسام،تامل ناڈو،کشمیر،لداخ،تبت اورآخری مشہور سفر بغداد سے ہوتے ہوئے مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ کے علاوہ دیگر عرب ممالک بھی اپنے عقیدے کے پرچارمیں مشغول رہے۔ ان کا آخری اورپانچواں سفر اندرون پنجاب رہا جہاں انہوں نے بے شمار مریدوں کو بت پرستی کی لعنت سے آگاہ کرتے ہوئے توحید کی طرف مائل کیااوراس پیغام میں ان کے دو مسلمان ساتھی” بالا اور مردانہ” ان کے پیغام کو گیت اور سنگیت کی شکل میں ڈھال کرلوگوں کو متوجہ کرتے تھے۔ بابا گرو نانک نے ابتدائی تعلیمات میں سب سے پہلے جھوٹ کو ترک کرنے،مذہب کی غیر ضروری رسومات سے پر ہیز،مذہبی کتب کے عین مطابق زندگی گزارنے کے اصول اوربغیر کسی وسیلے کے اللہ تک رسائی کی تعلیمات سے روشناس کروایااور اس کے ساتھ ساتھ انسان کے اندر چھپے ہوئے پانچ خطرناک امراض(چھپے ہوئے چوروں) تکبر، غصہ، لالچ، ناجائز خواہشات اورشہوت سے مکمل پرہیز کا حکم دیا گویاتوحید کا درس اورپانچ امراض کی نشاندہی یقینا اسلام کے وہ بنیادی سنہری اصول ہیں جن سے بابا گرونانک اس قدر متاثر ہوئے کہ انہوں نے بھی اپنے عقیدت مندوں کیلئے ان کو ضروری جانا۔ انہوں نے سکھ مذہب کی مکمل عمارت تین ایسے بہترین رہنما ستونوں پراستوارکی جس سے ان کی مذہب اسلام سے محبت اوریکسانیت کا پتہ چلتا ہے:

۱۔نام جپنا:اس سے مراد خدا کانام لیتے رہنا،اس کے گیت گاتے رہنااورہر وقت اسی کو ذہن وزبان میں تازہ رکھناہے۔جبکہ قرآن ہمیں یہ حکم دیتا ہے کہ ”اے اہل ایمان خدا کا کثرت سے ذکر کیا کرو(۳۳:۴۱)

۲۔کرت کرنی:اس سے مراددیانت داری سے محنت کر کے رزق حلال کمانا ہے جبکہ اللہ نے قرآن کریم میں دعاؤں کی قبولیت کی اولین شرط رزق حلا ل کو قراردیا ہے۔

۳۔ونڈچکنا:اس سے مراددولت کوبانٹناہے اورمل جل کرکھاناہے۔قرآن ہمیں یہ سبق دیتا ہے کہ”بیشک صدقات (زکوة) محض غریبوں اور محتاجوں اور ان کی وصولی پر مقرر کئے گئے کارکنوں اور ایسے لوگوں کیلئے ہیں جن کے دلوں میں اسلام کی الفت پیدا کرنا مقصود ہو اور (مزید یہ کہ)انسانی گردنوں کو (غلامی کی زندگی سے )آزاد کرانے میں اور قرض داروں کے بوجھ اتارنے میں اور اللہ کی راہ میں(جہاد کرنے والوں پر)اور مسافروں پرزکوة کا خرچ کیا جانا حق ہے یہ سب اللہ کی طرف سے فرض کیا گیا ہے، اور اللہ خوب جاننے والا بڑی حکمت والا ہے(۶۰:۹)۔گویا بابا گرونانک کے وضع کردہ سکھ مذہب کے تینوں بنیادی اصول قرآن کریم سے ماخوذ ہیں۔

گرو نانک سکھ مذہب کے صرف بانی ہی نہیں بلکہ واحدانیت،تصوف اور روحانیت کا پرچارک بھی ہیں۔ آپ مسلمانوں کے عظیم روحانی پیشواحضرت بابا فرید گنج شکر کے ہمعصر تھے۔اپنے طویل تبلیغی سفروں میں بابا گرونانک کو کئی جید مسلمان عالم مبلغوں کے ساتھ ملاقات اور مکالمے کے کئی مواقع ملے ۔ہمیشہ سے صوفی منش مبلغ مسلمان اپنے مدارس اور خانقاہوں پر غریبوں کے مفت کھانے پینے کا خصوصی اہتمام کرتے چلے آئے ہیں جو ابھی تک جاری وساری ہے جس کو عرفِ عام میں لنگر کا نام دیا جاتا ہے ۔ بابا گرونانک نے بھی اپنے طویل سفرکرنے کے بعد بقیہ زندگی گزارنے کیلئے۱۵۲۲ءمیں کرتار پورگاؤں کی بنیاد رکھی( جو بھارت اور پاکستان کی سرحد پر پاکستان میں واقع ہے) جہاں”کرتان اور لنگر” کی تقریبات کا آغاز کرتے ہوئے اپنے عقائد کی ترویج و تبلیغ کے ساتھ ساتھ غریبوںکو مفت کھانے پینے کی سہولت فراہم کی۔سکھ مورخین کے مطابق ا س دھارمک بستی کیلئے جہانگیر بادشاہ نے اپنی شہزادگی کے دوران ہی گروارجن صاحب کو نذر کردی تھی۔ اس جگہ پر گرو صاحب نے ایک دھرم شالہ بھی بنوائی۔ مشہور سکھ سکالر گیانی گیان سنگھ کے مطابق کرتار پور کو آباد کرنے کی تحریک ایک مسلمان میر عظیم خان نے شروع کی تھی اورکرتار پورپنجاب کی ایک مقدس بستی بن گئی تھی ۔اکبر بادشاہ بابا گرونانک سے خصوصی محبت کرتے تھے جس کی وجہ سے انہوں نے کرتارپور کیلئے ساری زمین تحفہ میں دی تھی۔

اسی طرح امرتسر شہر کی ابتدا کے بارے میں یہ ذکر بھی تاریخ میں ملتا ہے کہ مغلیہ سلطنت کے شہنشاہ اکبر نے امرتسر کا علاقہ سکھوں کے چوتھے روحانی پیشوا گرو رام داس کو دے دیا تھا اور رام داس نے یہاں رام داس پور کی بنیاد ڈالی جس کا نام بعد میں امرتسر ہوا لیکن یہ بھی کہا جاتا ہے کہ شہنشاہ اکبر نے۱۵۶۵ءمیں گرو امر داس اور پھر۱۵۷۹ءمیں گرو رام داس اور ۱۶۰۶ءمیں گرو ارجن دیو کو علاقے کی پیشکش کی تھیں جنہیں ان تینوں اشخاص نے قبول نہیں کیا تھا ۔گرو امرداس کی نسبت یہ بھی تاریخ میں آتا ہے کہ جاگیر قبول کرنے سے انکار کے بعد اکبر نے وہ جاگیر جس پر امرتسر قائم ہوا امرداس کی بیٹی بی بی بھانی کو شادی کے تحفے کے طور پر دے دی تھی جس سے امر داس انکارنہ سکے،مزیدیہ کہ اکبرنے سکھوں کے تمام علاقوں کومحصول ادا کرنے سے آزاد کردیاتھا۔امرتسرکیلئے پرانے نام رام داس پور کے علاوہ گرو چک اور رام داس چک بھی استعمال ہوتے رہے ہیں۔ کرتارپور(پاکستان)میں۱۵۳۹ءمیں اپنے انتقال سے قبل گرونانک نے گروانگد دیوکونیا گرونامزدکردیاتھاپھر تیسرے گروامرداس(۱۴۷۹ء تا۱۵۷۴ء)کے بعدآنے والے چوتھے گرورام داس۱۵۳۴ءتا۱۵۸۱ءنے امرتسرکے پرانے تالاب کی مرمت کا کام شروع کیا اور اس کے درمیان میں ایک مندر یا گردوارا دربار صاحب تعمیر کیا جس کو ہری مندر بھی کہا جاتا ہے۔ شہنشاہ اکبر اوراس کے بعد بھی عمومی تعلقات رام داس پور (امرتسر)سے نہ صرف اچھے رہے بلکہ مغلیہ سلطنت میں رام داس پور کی حیثیت نیم خود مختار علاقے کی سی تھی۔

امرتسر میں واقع دربار صاحب کیلئے زمین بھی اکبر بادشاہ نے ہی دی تھی۔۱۵۸۹ءمیں لاہور کے نیک سیرت فقیر اورمشہور خدارسیدہ بزرگ حضرت میاں میر صاحب نے اس کا سنگ بنیادرکھا۔گورو ارجن جی کا پیار سب سے زیادہ میاں میر جی سے تھا یہ مسلمان فقیر تھے، جن کے ہاتھوں گروجی نے ہرمندرصاحب کی بنیادرکھوائی تھی(بحوالہ رسال ہنویاں قیمتاں جنوری ۱۹۴۹ء) ۔گوروصاحب نے صرف اس پوتراستھان کی بنیادہی ایک پوترمسلمان کے ہاتھوں سے نہیں رکھوائی بلکہ زمین بھی ہرمندر کیلئے وہ چنی جوایک مسلمان بادشاہ اکبر کی طرف سے نذرکی گئی تھی ۔ (بحوالہ بھارتی راشٹریہ کانگریس امرتسر۱۹۵۶ء)۔اس بارے میں ایک سکھ ودوان یوں لکھتے ہیں: ۱۹۲۳ءمیں جب تالاب کی سیواکی گئی تھی تو مالیر کوٹلہ کے نواب کی جتھے داری کے ماتحت دوسوانتہائی معزز مسلمان پوتر گارے کی ٹوکریاں اٹھانے کیلئے امرتسر آئے تھے۔ (بحوالہ رسالہ خالصہ پارلیمنٹ گزٹ اکتوبر۱۹۵۶ء)بعدازاںمہاراجہ رنجیت سنگھ کے زمانے میں اس کا سنہری جڑاؤ بھی ایک مسلمان انجینئر محمد یار خان نے تیارکیا تھا ۔ایک مشہور سکھ سکالر سردارگور بخش سنگھ شمشیرلکھتے ہیں:

ایک مسلمان فقیر حاجی محمدمسکین بابا گرونانک کے پیار کی کشش میں امرتسر آئے اور۳۱دسمبر۱۹۲۵ءکودن کے دوبجے انہوں نے ایک بہت قیمتی چندن کا چنور بڑی عقیدت سے بھائی ہیرا سنگھ راگی کی معرفت دربار صاحب کی نذر کیا۔ اس نانک پریمی مسلمان نے یہ چندن کا چنور پانچ برس اور سات مہینے کی محنت سے تیار کیا تھاجس کی ایک لاکھ پینتالیس ہزار باریک تاریں ہیں۔ ان کو۹من۱۴سیر چندن میں سے تیار کیاگیا تھا۔ آج کل یہ چنور بڑی حفاظت کے ساتھ جلو خانے میں رکھا ہوا ہے جب یہ چندن کا چنور فقیر نے نذر کیا تھا تو سری ہرمندر کی طرف سے ایک سو پونڈ کے قیمتی دو شالے ان کوبطور خلعت دیئے گئے تھے (بحوالہ رسالہ امرتسر مئی۱۹۳۸ء)۔سکھوں کی ایک مقدس زیارت پنجہ صاحب پاکستان کے ضمن میں ایک سکھ سکالر گیانی گیان سنگھ یوں لکھتے ہیں:پنجہ صاحب کا تالاب خواجہ شمس الدین صاحب نے بنوایا تھا۔ وہاں پر موجود گوردوارہ کو مشہور مسلمان نواب خان آف قلات نے ایک وسیع جاگیرعطاکی تھی۔(بحوالہ گوردھام سنگرہ ص۲۲)

گورو گوبند سنگھ صاحب کو اپنے زمانے کے مسلمان رئیسوں اور عام لوگوں کے ساتھ نہایت دوستانہ تعلقات تھے ۔چنانچہ میرگامے شاہ، میرحسن شاہ، چودھری پیر علی،بلونت خان،چودھری پھتو، چودھری سمو، جمال خان وغیرہ آ پ کے جگری دوستوں میں سے تھے اور آپ کی سیوا کرتے تھے۔ سکھ مورخین نے لکھا ہے کہ پٹنہ (بہار)میں وہاں کے قاضیوں نے گورو تیغ بہادر صاحب کو ایک باغ نذر کیا تھا جسے آج کل گورو کا باغ کہتے ہیں۔ بہادر گڑھ (پٹیالہ)میں گورو تیغ بہادرصاحب کئی ماہ ٹھہرے تووہاں پرایک مسلمان علی خان نے دل وجاں سے آپ کی بہت خدمت و تکریم کی۔ متھرا کے نواب نے گورو گوبند صاحب کو ایک باغ نذر کیا تھا جسے آج کل نذر باغ کہا جاتا ہے۔

بہت سے سکھ مورخین کے علاوہ ایک اورمشہورسکھ سکالر سردار گیان سنگھ لکھتے ہیں: جب پہاڑی راجاؤں اور مہاراجوں نے گرو گوبند صاحب کے خلاف مورچہ شروع کیا تو پانچ سو اداسی سادھو جن کی گورو صاحب کی روٹیوں پر پرورش ہوئی تھی، موقعہ آنے پر میدان سے بھاگ گئے جب بدھو شاہ کو معلوم ہوا تو وہ دو ہزار سپاہی لے کر میدانِ جنگ میں آیا اور اس لڑائی میں بدھو شاہ کے دو بیٹے بھی گورو صاحب کی طرف لڑتے ہوئے مارے گئے جس کا نتیجہ میں گورو گوبند صاحب کو آنند پور صاحب چھوڑنا پڑا اور آپ ماچھی واڑہ کے جنگلوں میں چلے گئے اور مسلمان حاجیوں کاجیسا لباس پہننا پڑا۔اس موقعہ پرسب سے پہلے غنی خان اورنبی خان نے گوروصاحب کی سیوا کیلئے خودکوپیش کیا اورانہوں نے گوروصاحب کوپالکی میں بٹھاکرانہیں اپنے کندھوں پر اٹھالیا ۔ اس طرح ان دو بھائیوں نے گوروگوبند سنگھ صاحب کو دشمنوں سے بچاکے محفوظ مقام پر لے گئے۔ غنی خان اور نبی خان کی اس خدمت پر گورو صاحب انہیں ایک حکم نامہ دے دیا جن میں انہوں نے لکھا کہ نبی خان اورغنی خان مجھے اپنے بیٹوں سے بھی زیادہ پیارے ہیں۔ اس واقعہ کا حوالہ سکھوں کی مختلف کتابوں میں درج ہے جن میں گورپرتاپ سورج گرنتھ ورت، ظفر نامہ سٹیک،جیون کتھااورسکھ اتہاس نامی کتابیں قابل ذکرہیں۔(بحوالہ تواریخ گوروخالصہ اردوص۱۵۸)  سکھ مورخین بتاتے ہیں کہ گوروگوبند صاحب کی پہاڑی راجاؤں کے ساتھ جتنی بھی لڑائیاں ہوئیں ان میں گورو صاحب کی طرف سے بہت سے مسلمان کمانڈر بھی شامل رہے اوران لڑائیوں میں بڑھ چڑھ کرحصہ لیا۔ ان کمانڈروں میں ید بیگ، الف خان،صیاد خان، صیاد بیگ، میمون خان وغیرہ شامل تھے۔

 سکھ مورخین نے دعویٰ کیاہے کہ مغلوں کے آخری فرمانروابہادرشاہ ظفرنے گورو گوبند صاحب کو اسلام کی ایک برگزیدہ شخصیت کی ایک یادگار اور متبرک تلوار نذر کی تھی۔ جوآج بھی سری کیس گڑھ آنند پور میں موجود ہے۔ مذکورہ ایک سکھ وِدوان نے رسالہ سنت پاہی (اگست۱۹۵۱ء)  میں تحریرکیاہے کہ سکھ ودوان سردار کاہن سنگھ کے مطابق اس تلوار کے ایک طرف کلمہ شریف اوردوسری طرف نصرمن اللہ و فتح قریب لکھا ہے۔الغرض مسلمانوں نے اپنی نہایت مقدس اورلاثانی چیزبھی گوروصاحب کوعطا کی تھی۔ اس سے اس بات کا اندازہ بخوبی لگایا جاسکتا ہے کہ مسلمان آپ کی کتنی عزت کرتے تھے اورمسلمانوں اورسکھوں کے درمیان کس قدرخوشگوارتعلقات رہے ہیں۔ مغل بادشاہوں کے ساتھ گوروصاحبان کے کس قسم کے خوشگوار تعلقات تھے،اس کا اندازہ لگانے کیلئے اوپردرج کئے گئے واقعات نہایت چشم کشا ہیں۔جہاں مسلمان بادشاہوں،نوابوں،رئیسوں، فقیروں اورصوفیوں نے گورو صاحبان کے ساتھ نہایت دوستانہ اور برادرانہ تعلقات قائم کئے تھے وہاں سکھ صاحبان نے بھی مسلمانوں کے ساتھ ہمیشہ دوستانہ اورخوشگوارتعلقات قائم رکھے ہیں چنانچہ گوروصاحب نے اپنے خرچے سے کرتارپور ہرگوبندپوراورامرتسروغیرہ جگہوں پرعالی شان مسجدیں بنائی ہیں۔

بابا کے جانشین گورو انگدنے ان کی تعلیمات کو عام کرنے کے لیے قدیم کلاسیکی پنجابی زبان میں گرمکھی رسم الخط کو متعارف کرایا۔۱۵۵۱ء میں امرداس تیسرے گورومنتخب ہوئے ان کی ۱۵۷۴ء میں وفات کے بعد چوتھے گورو رام داس نے امرتسر کی بستی آباد کی، جس کیلئے شہنشاہ اکبر نے اخراجات ادا کرنے کے علاوہ ۵۰۰بیگھے زمین بھی وقف کی۔ رام داس کی وفات کے بعد ۱۵۸۱ءمیں ان کا بیٹا گوروارجن جانشین منتخب ہوئے۔ گوروارجن دیو نے ہی سکھوں کی مقدس کتاب ”گورو گرنتھ” مرتب کی جس میں پہلے پانچ گروؤں کی(۱۴۶۹ءسےلیکر۱۷۰۸ءتک۲۳۹سال پرمحیط تعلیمات ) کو گرمکھی زبان میں ہی تحریر کیا گیا ہے۔یہ۳۳۸۱/اشعارپرمشتمل ہے جوکہ ہندوئوں کی مقدس کتاب ”رگ وید” سے تقریبا تین گنا بڑی ہے۔اس میں بابا گورونانک، بھگت کبیر اور بابافرید کے اشعار شامل ہیں۔

سکھوں کے تمام مذہبی مقامات گوردواروں میں یہ کتاب موجود رہتی ہے اور مذہبی تہواروں کے مواقع پر اس کتاب کے مندرجات پڑھ کر اور گا کر سامعین کو سنائے جاتے ہیں۔اس کتاب میں سکھوں کے خدا کی جو پہچان بتائی گئی ہے وہ بعینہ قرآن مجید کی دی ہوئی تعلیمات کے عین مطابق ہے۔

آج سکھ مذہب کے تمام افرادکثرت سے ”ست سری اکال” (سچا،بڑا ،خدا)کا دعائیہ جملہ استعمال کرتے ہیں جس کا ترجمہ حیرت انگیز طور پر”اللہ اکبر ”ہے اور سکھوں کا سب سے بڑا نعرہ ”واہگورو کا خالصہ واہگورو کی فتح”(اللہ کے مومن کی ہی جیت ہے)بھی قرآن کریم کی مشہور آئت کا لفظ بہ لفظ ترجمہ ہے۔چنانچہ دنیاکے دو مذاہب اسلام اور سکھ مذہب ایسے مذاہب ہیں جن کے ہاں خدائی کا تصور شرک سے پاک ہے۔

 بالآخرکرتارپور میں ہی پیر۲۲ستمبر۱۵۳۹ء(۹جمادی الاوّل۹۴۶ھ)کوصوفی منش باباگرونانک اپنے ہزاروں عقیدت مندوں کو داغِ مفارقت دیکراسی ربّ ِ کائنات کی طرف لوٹ گئے جس کاوہ دنیا میں پرچارکیاکرتے تھے۔ ان کے جسدِ خاکی کی آخری رسومات کیلئے ہندوؤں اور مسلمانوں میں ٹھن گئی تو بابا گرونانک کی وصیت کے مطابق یہ فیصلہ کیاگیا کہ باباکے جسدِخاکی کے گرد پھول رکھ دیئے جائیں، اگلے دن جن کے پھول تازہ ہوں گے وہی ان کی آخری رسومات کے حق دار ہونگے ۔ اگلے دن جب چادر ہٹائی گئی تو لاش غائب تھی اور دونوں اطراف کے پھول تروتازہ تھے۔چنانچہ ہندؤوں نے اپنے حصے کے پھولوں کو نذرآتش جبکہ مسلمانوں نے اپنے حصے کے پھولوں کو دفن کر دیا،آج کرتار پورمیں دونوں کے مقامات موجود ہیں۔

بابا گرونانک کی اہلیہ محترمہ سلا خانی سے ان کے دو بیٹے”سری چند” اور”لکشمی چند” تھے۔ سکھ روایات کے مطابق سری چندبہت عابد اور زاہد انسان تھے جن کی لمبی داڑھی اور سر کے طویل بال تھے۔سکھ مذہب کی تعلیمات کے مطابق ہمارا جسم خدا (اللہ، بھگوان، جسے بھی آپ خدا مانتے ہیں)کی دین ہے اور ہمیں اِسے ویسا ہی رکھنا چاہئے جیسا خدا نے عطا کیا ہے۔ اس میں غیر فطری طریقوں سے کسی قسم کی کوئی تبدیلی نہیں کرنا چاہئے یہ خدا کی ناشکری کے مترادف ہے۔ اسی حکم کی وجہ سے پختہ عقیدے کے مالک سکھ اپنے جسم کے بال نہیں کٹواتے جبکہ لکشمی چند نے شادی کی اور ان کے بھی دو بیٹے ہوئے۔بابا گرونانک نے اپنی تعلیمات سے ہندوؤں اور مسلمانوں کے درمیان مشترکہ مذہبی ہم آہنگی کی بے حد کوشش کی لیکن توحید تونام ہی بت شکنی کا ہے اسی لئے ایک اورنیاسکھ مذہب وجود میں آگیا۔مسلمانوں کیلئے بابا گرونانک کی تعلیمات قطعاً نئی نہیں کیونکہ یہ وہی تعلیمات ہیں جو اس سے قبل آسمانی صحائف ، قرآن کریم اورخاتم النبینۖ کی سیرتِ مبارکہ میں موجود ہیں۔

لیکن کیا وجہ ہے کہ مسلمانوں اورسکھوں کے درمیان اس قدرمحبت و اخوت کا رشتہ استوار کرنے والے باباگرونانک کی تعلیمات کو پس پشت ڈال کرسکھوں اورمسلمانوں کے درمیان دشمنی اور نفرت کی ایسی فصیل کھڑی کردی گئی کہ آج کی نوجوان نسل کو آمنے سامنے کھڑاکردیا گیالیکن کیا وقت نے ان تمام سازشوں کو بے نقاب کردیاہے ؟وہ کیا وجوہات تھیں کہ جن کی بدولت مسلم سکھ دوستی اوربرادرانہ تعلقات دشمنی اور نفرت میں تبدیل ہو گئے۔ بابا گرونانک سے مسلمانوں کی محبت اور عقیدت کا یہ عالم کہ ان کی آخری رسومات کیلئے میدان میں اتر آئے اوربالآخر بابا کی وصیت کے مطابق ان کے حصہ میں جو تازہ پھول آئے ان کو دفن کیا گیا اورآج تک وہ جگہ مرجع خلائق ہے اوریہی وہ مقام ہے جس نے ابھی تک سکھوں اور مسلمانوں کومضبوط رشتے میں جکڑ رکھا ہے۔

بابا گرونانک کی بنیادی تعلیمات میں غریبوں،مسکینوں اورکمزورلوگوں کی حمائت کا سبق موجود ہے جس کااسلام بھی بڑی سختی سے حکم دیتا ہے۔بابا گرونانک نے جب کرتارپورکو اپنی تعلیمات و تبلیغ کاذریعہ بنایا تو وہاںہر خاص وعام کیلئے لنگر کاانتظام بھی اسی لئے کیا تاکہ وہاں غریبوں مسکینوں اور محتاجوں کوکھانے پینے کی سہولت میسر آسکے اوران میں اکثریت ایسے افراد کی تھی جو اپنے علاقے میں ہونے والے مظالم سے تنگ آکر یہاں مقیم ہو گئے تھے جن کی حفاظت کا بیڑہ خود بابا گرونانک اوران کے مریدوں نے اٹھایا۔اس طرح بابا جی کی تعلیمات کا شہرہ دوردراز تک پھیل گیااوردن بدن ان کی تعداد میں اضافہ ہوتا چلا گیا۔بالآخرسکھوں کے دسویں گروگوبند نے غریبوں میں سے اپنے پانچ  ساتھیوں کا چناؤ کرکے ان کو پانچ پیاروں کا لقب عطاکیااور اس طرح پہلی مرتبہ سکھ مذہب میں باقاعدہ طور پر خالصہ تحریک نے جنم لیا۔

اس زمانے ہندوستان میں مغلیہ حکومت کے فرمانرواں اورنگ زیب کی حکومت تھی اوراس کے دربار میں تمام مذاہب کے لوگ بلا تفریق مختلف عہدوں پر فائض تھے۔بعض ہندو عہدیداروں نے جب ہندوؤں کی ایک کثیر تعداد کو سکھ دھرم میں داخل ہوتے ہوئے دیکھا تو انہوں نے ایک گہری سازش کرکے اورنگ زیب کو ان کے خلاف اکسانا شروع کردیا کہ یہ سکھ مغلیہ حکومت کو ختم کرنے کے درپے ہیں ۔ہندو اپنی سازش میں اس لئے بھی کامیاب ہوگئے کہ ان دنوںاورنگ زیب کا بھائی دارشکوہ بھی فرارہوکرسکھوں کے ہاں پناہ گزیں تھا،اس لئے انہوں نے اس موقع سے سیاسی فائدہ اٹھاتے ہوئے اورنگ زیب کوسکھوں کے خلاف لشکر کشی پرآمادہ کرلیاکہ کوئی بھی حکومت اپنی سلطنت کے خلاف باغیوں کو سر اٹھانے کی اجازت نہیں دیتی جبکہ دوسری طرف سکھ یہ سمجھتے تھے کہ ان مظالم کے خلاف ان غریبوں کی حمائت بابا گرونانک کے حکم کے مترادف ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مغلیہ دورِ حکومت میں سکھوں کے خلاف جنگ کوئی مذہبی جنگ قطعاً نہ تھی۔اگرایساہوتاتوسکھوں کی افواج میں ایک کثیرتعداد مسلمانوں کی نہ ہوتی جوگرونانک سے محبت کی بناء پراپنی جانیں قربان کرنے کیلئے میدان جنگ میں نہ صرف کود پڑے بلکہ بڑی شجاعت کے ساتھ اپنی جانیں بھی قربان کیں جس کا تذکرہ سکھ بڑے احترام سے آج بھی اپنی تاریخ میں محفوط کئے ہوئے ہیں۔

بالآخریہ مسلم سکھ اتحادجوکہ بابا گرونانک کی محبت کی مشترکہ میراث تھی ،رنجیت سنگھ کی معیت میں پنجاب پرحکومت بنانے میں کامیاب ہو گیا اورتاریخ گواہ ہے کہ رنجیت سنگھ نے اپنے دربار میں تمام اہم عہدے مسلمانوں کے سپرد کئے اور کئی سال مسلمانوں کی وفاداری اور محبت کے بل بوتے پریہ ایسا امن و امان کادورِ حکومت تھا جس کاآج بھی سکھ بڑے تفاخر کے ساتھ ذکر کرتے ہیں۔ تاریخ گواہ ہے کہ وہی ہندو عناصر جنہوں نے

اورنگ زیب کو سکھوں کے خلاف اکسایا بعدازاں انگریز کے ساتھ ملی بھگت کرکے پہلے ایسٹ انڈیا کمپنی کی داغ بیل ڈالی اوربعدازاں ہندوستان سے مغلیہ دورِ حکومت کو ختم کرانے میں کامیاب ہو کرانگریز کے دربار میں رسائی حاصل کرنے میں کامیاب ہو گئے۔رنجیت سنگھ کی پنجاب میں کامیاب حکومت کے پیچھے سکھ مسلم اتحاد کی مشترکہ میراث کاطاقتورجذبہ موجود تھا اورانگریز اس بات سے واقف تھے کہ اس خطے میں یہی دونوں قومیں جنگجو ہیں اوریہاں اس وقت تک کامیابی حاصل نہیں ہو سکتی تاوقتیکہ ان دونوں قوموں کے درمیان کوئی ایسی منافرت اور دشمنی نہ پیدا کر دی جائے جس سے ان دونوں قوموں کے درمیان ایک ایسی خونرزیز جنگ شروع ہو جائے جس سے یہ نہ صرف ایک دوسرے کے خون کے پیاسے بن جائیں بلکہ ہمیشہ ہمیشہ کیلئے دشمنی اورنفرت کی ایسی دیوار کھڑی ہو جائے کہ اس خطے میں کبھی بھی ان کا دوبارہ ایسا مثالی اتحاد نہ ہو سکے۔

برہمن اورانگریز کی مشترکہ سازشوں نے بالآخرمغلیہ دورِ حکومت میںوہ تمام ہندو جو سکھوں کا روپ دھار کران میں شامل ہو گئے تھے اس تحریک کو لیکر آگے بڑھے اوراس امپیریل جنگ کو سکھوں اور مسلمانوںکے درمیان مذہبی جنگ سے تشبیہ دیکر تاریخ کو مسخ کرنے میں کامیاب ہو گئے جس کے نتیجے میں ایک ایسی نفرت کی آگ پھیلادی جس کے شعلوں نے بالآخررنجیت سنگھ کے پنجاب میں مسلم سکھ اتحادکو جلا کر خاکستر کردیااور انگریزوں کو پنجاب پر قبضہ کرنے میں کوئی دشواری نہ ہوئی۔ انفرادی طورپر بعدازاں سکھ اور مسلمان ایک دوسرے کے ساتھ شیر و شکر توہو گئے لیکن انگریزوں نے ہمیشہ حکومت کرنے کیلئے تقسیم کرنے کی پالیسی پرعمل کرتے ہوئے اس خطے میں سکھوں اور مسلمانوں کو سیاسی طور پر دوررکھنے میں ہمیشہ کامیاب رہے۔یہی وجہ ہے کہ جب برطانیہ کا سورج بھارت میں غروب ہو رہا تھاتوقائد اعظم جو بابا گرونانک کی تعلیمات مسلمانوں اور سکھوں کی مشترکہ میراث کی تاریخ سے واقف تھے،انہوں نے سکھوں کے لیڈرماسٹر تارا سنگھ کونہ صرف ہندوؤں کی ذہنیت اورسازشوں سے آگاہ کیا بلکہ پاکستاان کے اندرسکھوں کو مکمل مذہبی آزادی کے ساتھ تمام بنیادی ومساوی حقوق کی یقین دہانی بھی کروائی لیکن ماسٹر تارا سنگھ نے اپنی کور بصری کی بناء پر سکھوں کی آزادی کایہ سنہراموقع گنوادیاجسے آج حریت پسندسکھ قوم بھی اپناسب سے بڑامجرم سمجھتی ہے کہ جن کے اس ناعاقبت اندیش فیصلے نے انہیں بے رحم برہمن بھیڑیوں کے سامنے پھینک دیا۔

عیار برہمن نے ایک گہری سازش کے تحت قیام پاکستان کے موقع پر سکھوں کے ہاتھوں مشرقی پنجاب میں مسلمانوں کے قتل عام،مسلمان خواتین کی بے حرمتی اوربے یارومددگار قافلوں میں لوٹ مار،قتل وغارت گری کاایسا بازارگرم کروایاکہ بعض مقامات پرکچھ جذباتی مسلمان بھی اپناردعمل پرقابونہ رکھ سکے۔برہمن کی دوررس سازش کامیاب رہی تاکہ یہ دونوں قومیں مشترکہ سرحد پر رہتے ہوئے بھی ایک دوسرے کے خلاف نفرت اور انتقام کی آگ میں جلتے رہیں۔ کیا یہ قتل عام بابا گرونانک یا ان کے بعد آنے والے سکھ مذہب کے گروؤں کی تعلیمات کے مطابق تھایااسلام میں اس کی کہاں اجازت تھی؟؟؟اس کے برعکس جس ہندوقوم کو خوش کرنے کے لیے سکھوں نے مسلمان کی ریل گاڑیوں کی ریل گاڑیوں کو تہہ تیغ کیا اور لاشوں سے بھرے خون آلود ڈبے پاکستان بھیجے اس ہندو قوم نے سکھوں کو کون سا انعام دیا؟؟؟پاکستان میں تو سکھوں کے سارے مقدس مقامات محفوظ ہیں جبکہ آنجہانی اندراگاندھی نے امرتسر میں واقع سکھوں کے دربارصاحب کی حرمت کو بھارتی فوج کے ناپاک بوٹوں نے بری طرح پامال کردیااوروقت نے قائداعظم کے دانشمندانہ فیصلے کی تصدیق کردی ۔

 باباگرونانک کی روشن تعلیمات کو اس وقت اور جلا ملی جب روس کے سرخ ریچھ نے اچانک افغانستان پراپنی ناپاک جارحیت کا ارتکاب کیاجس کے نتیجے میں جہاں۳۰لاکھ افغان مہاجرین کو پاکستانی قوم نے اپنے گلے لگایاوہاں ۳۵ہزار کے لگ بھگ افغان سکھوں کوبھی پاکستانی مسلمانوں نے اپنے سرآنکھوں پر جگہ دی اورتاریخ نے بابا گرونانک کی ان اسلامی تعلیمات” مسلم سکھ اتحاد کی مشترکہ میراث”کوسچ ثابت کردکھایا۔ پاکستان کے مسلمان آج بھی سکھوں کے ساتھ حسن سلوک کاوہی رویہ رکھتے ہیں جس کیلئے بابا گرونانک نے بے انتہا محنت کی تھی۔ قدرت کا انعام اور فیصلہ دیکھئے کہ نہ صرف بابا گرونانک کی جنم بھومی اورآخری آرام گاہ بلکہ سکھوں کے بیشتر مذہبی مقامات سرزمین پاکستان میں واقع ہیں جن کی زیارت کیلئے ہزاروں سکھ ہرسال وطن عزیز کی سرزمین پر مہمان بن کر آتے ہیں بلکہ مشرقی پنجاب سے بہنے والے دریاؤں کاپانی،سب کا رخ پاکستان کی جانب ہے جو سکھوں اور مسلمانوں کوایک دوسرے کی طرف محبت اورالفت کے ساتھ گلے ملنے کااشارہ دیتے ہوئے اپنے مشترکہ دوست اوردشمن میں تمیز کا سبق دے رہے ہیں ۔

پاکستان واحد ملک ہے جہاں سکھ مذہب اور اس کے پیروکار سب سے زیادہ احترام کی نظر سے دیکھے جاتے ہیں۔ حکومت پاکستان نے سکھوں کے مذہبی مقامات کی دیکھ بھال میں اہم کردار ادا کیا ہے۔پاکستان کے بانی قائد اعظم محمد علی جناح کے ایک سو تیسویں یومِ پیدایش پر کاکول کیڈمی کے جن کیڈٹس نے مزار کے گارڈز کے فرائض سنبھالے ہیں ان میں چھ خواتین کے ساتھ ایک سکھ کیڈٹ شامل ہیں۔پاکستان کے بانی قائد اعظم محمد علی جناح کا یوم پیدائش ہر سال پچیس دسمبر کو منایا جاتا ہے۔ملکی تاریخ میں یہ پہلی مرتبہ ہوا ہے کہ قائداعظم کے مزار پر خاتون کیڈٹس یا کسی سکھ کیڈٹ نے سلامی پیش کی ہو۔

بابا ہرنام سنگھ کے تڑپتے وکانپتے ہونٹوں سے نکلاہوا ایک یادگار جملہ بھی تومیں آج تک نہیں بھول سکاجو انہوں نے لاہوربی بی سی کے نمائندے کوانٹرویو دیتے ہوکہا:

“یہ وہی لاہوراسٹیشن ہے جب ۱۹۴۷ءمیں یہاں ٹرین رکی تھی اورمیں مارے خوف کے یہ کہہ رہا تھا کہ یہاں ٹرین کیوں رک گئی ہے کہ اوردعا کررہاتھاکہ جلدسے جلدروانہ ہواورآج میں دعاکررہاہوں کہ کاش یہ ٹرین ہمیشہ کیلئے یہاں رک جائے اورزندگی یہیں تمام ہو جائے”۔

صبح کاذب کی ہوا میں درد تھا کتنا منیر

ریل کی سیٹی بجی تودل لہو سے بھرگیا



via Pakistan News – Pakistan Views – Zameer36 Global Issues & World Politics https://ift.tt/2KgQ4hj

Comments