پیارے عوام حکمرانوں کو بتلاؤ

نغمہ حبیب

کہ تم ان کے جلسے سجاتے ہو
تم اِن کے ووٹ بناتے ہو
اِن کو لیڈر بناتے ہو
ان کو ایوانوں میں بھیجتے ہو
اور جب یہ تمہارے ہی پیسوں سے
تمہارے ہی ٹیکسوں سے
تمہارے خون پسینے کی کمائی سے
چند سڑکیں بناتے ہیں
کچھ ٹیوب ویل لگاتے ہیں
کوئی شفاخانہ کسی سکول کی تعمیر کرتے ہیں
تو تم پلکیں بچھاتے ہو
پتیاں اِن پر لٹاتے ہوں
اور پیارے عوام یہ لیڈر اپنی تجوریوں کی گرہ کومزید مضبوط اور محفوظ بنا کر بڑی تسلی کے ساتھ اپنی آنے والی نسلوں کے لیے سنبھال کر آنے والے الیکشن کی تیاری میں لگ جاتے ہیں اور اپنے اگلے جلسے اگلی تقریر میں تمہارے اوپر کسی اور سڑک ، ہسپتال یا کارخانے کی تعمیر کا احسان جتانے کا سکرپٹ تیار کرنے لگتے ہیں اور ان کے کارندے ایک مزید بڑے جلسے کے لیے اِن کے احسانات کی نئی فہرست تیار کرکے بروشر تمہارے گھروں کے دروازوں پر پھینکنے لگ جاتے ہیں، تمہاری غربت کا فائدہ اٹھاتے ہوئے چند نوٹ تمہیں تھماتے ہیں بریانی کی چند دیگیں کسی اور شہر میں چڑھتی ہیں اور پھر تاحد نگاہ سر ہی سر نظر آنے لگتے ہیں۔ ویسے لاکھوں کے شہروں میں دس، بیس، پچاس یا اسی ہزار سروں کا ایک جگہ جمع ہو جانا فیصلہ نہیں ہوتا لیکن زمانے کا رواج ایسا ہی ہے لہٰذا مان لیا جاتا ہے۔ 2018 الیکشن کا سال ہے اور ایک بار پھر یہی سب کچھ ہو رہا ہے بڑے بڑے منصوبے شروع کیے جا چکے ہیں عوام کے بخت بیدار ہیں کہیں ہسپتالوں کے افتتاح ہو رہے ہیں، کہیں سڑکوں کے، کہیں پلوں کے، کہیں ٹرین منصوبوں کے ۔عوام کی ضرورت کو تناسب کے حساب سے نہیں گلیمر کے تناسب سے پورا کیا جا رہا ہے لیکن چلیں کچھ تو ہو رہا ہے اور اس کچھ میں بھی ’’زیادہ کچھ‘‘ تو حکمرانوں کے حصے میں آرہا ہے اور ’’کم کچھ‘‘ عوام کے نصیب میں۔ ہمارے حکمران کر پشن کو اپنا حق سمجھتے ہیں جس طرح پراجیکٹ انچارج کا ایک ’’پر سنٹیج‘‘ مقرر ہوتا ہے سلسلہ آگے بڑھتا ہے اور اس’’ پر سنٹیج ‘‘میں زیادہ ’’پرسنٹیج‘‘ حکمران کے حصے میں آجاتا ہے یا اللہ رحم کر اس قوم پر اور عقل دے اس کو جو پھر بھی انہی حکمرانوں کو اپنا مائی باپ کہتی ہے جو حکمران اسے لوٹتے ہیں یہ اُس کے لیے چند ہزار روپے لے کر نعرے لگا لگا کر اپنے گلے پھاڑتے ہیں ایسے میں اگر کچھ ادارے ان کو روکیں تو اُن کے خلاف ہو جاتے ہیں نہ اُن کے تقدس کا خیال رکھا جاتا ہے اور نہ اہمیت کا۔ آج کل ن لیگ اور اس کے رہنما کچھ ایسے ہی رویے کا مظاہرہ کر رہے ہیں۔ ہماری عدالتیں متعدد بار نظریہ ضرورت کا شکار ہوئی ہیں لیکن اب جب کہ وہ کچھ دلیرانہ اورمبنی بَر انصاف فیصلے کر رہی ہیں تو اسے تنقید بلکہ تضحیک کا نشانہ بنانا ہر گز درست نہیں۔ میں یہ نہیں کہتی کہ یہ اسی جماعت کا رویہ ہے کل کو جب یہی عدالتیں کسی اور سیاسی جماعت کے کارناموں سے پردہ اٹھائیں گی تو ان کا رویہ بھی مختلف نہیں ہوگا۔ اس وقت محترم میاں نواز شریف صاحب جب پانامہ اور اقامہ کے جرائم میں موردِ الزام ٹھہرے اور ان پر ثابت ہوا کہ ان اور ان کے خاندان کی آف شور کمپنیاں ہیں اور یہ بھی ثابت ہوا کہ وہ سعودی عرب میں اقامہ ہولڈر ہیں اور جس کی بنا پر انہیں وزارت عظمیٰ کے لیے نا اہل قرار دیا گیا مزید انہیں لندن میں جائیداد بنانے اور چھپانے کا بھی قصوروار گردانا گیا تو محترم بمعہ خاندان عدلیہ کے خلاف تحریک چلانے میں مصروف ہو گئے۔ ہمارے سیاست دان جب تک اپوزیشن میں ہوتے ہیں حکومت کے خلاف ہونے والی ہر کاروائی کو جائز اور عظیم سمجھتے ہیں اور حکومت میں آتے ہی ہر ایسے عمل کے خلاف کمر کس لیتے ہیں جو آجکل نواز لیگ کر رہی ہے۔ میں ہر گز نہیں کہتی اور نہ کہوں گی کہ ہمارا ہر جج عظیم ہے ایسے بے شمار ججوں کی مثالیں موجود ہیں جن کے غلط فیصلوں نے ملک کی تاریخ پر انتہائی بُرے اثرات چھوڑے ہیں، میں عدلیہ پسند کہلانے کے چکر میں یہ کوشش بھی نہیں کروں گی کہ اِن فیصلوں کی حمایت کروں میں نے بسا اوقات فیصلوں پر تنقید بھی کی ہے اور یہ بھی بتا دوں کہ میرے ایسے مضامین کو اکثر اخبارات نے شائع بھی نہیں کیا اگر چہ اُن میں ججوں پر تنقید تھی عدلیہ پر نہیں لیکن میں یہ ضرور کہوں گی کہ آج کل جو کچھ ہو رہا ہے وہ بھی ہر گز درست نہیں کھلے عام عدالتوں کو تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا ہے کیونکہ وہ مسلم لیگ نہیں صرف اُس کے قائدین کی حرکات پر اُنہیں سرزنش کر رہے ہیں مجھے اس بات کا بھی یقین ہے کہ اگر اِن کی جگہ دوسری پارٹی ہوتی تو ان کا بھی یہی رویہ ہوتا۔ بہر حال اس وقت جناب نواز شریف اور اہلخانہ کی حرکات کچھ ایسی ہیں جن پر ہر محب وطن پاکستانی کو اعتراض ہے یہ لوگ زیادہ امن پسند بننے کے شوق میں ملک کے دشمنوں کو اپنا دوست بنائے بیٹھے ہیں اس وقت انہیں اُسی کشمیر میں ہوتے مظالم نظر نہیں آتے جس کے اوپر یہ لوگ ووٹ لیتے ہیں یہ پورا خاندان اپنے تجارتی فوائد حاصل کرنے کی خاطر بھارتی حکمرانوں کے آگے بچھ بچھ جاتا ہے، ان کی مِلوں میں بھارتی ہندو کام کر رہے ہیں، شادیوں میں شرکتیں کی جارہی ہیں، کرپشن کے بادشاہ یہ لوگ پانامہ، لندن، سعودی عرب اور پاکستان ہر جگہ دولت سمیٹ اور لوٹ رہے ہیں لیکن جب عدالت انہیں روکتی ہے تو یہ طعن و تشنیع پر اتر آتے ہیں۔ مریم نواز جو آج ہر ادارے کو چیلنج کیے جا رہی ہیں خود ان کے ذاتی اور تعلیمی زندگی کے کئی مراحل چیلنج کیے جا چکے ہیں چونکہ میرے پاس اُن تمام باتوں کے ثبوت فی الحال نہیں ہیں لہٰذا ان کا ذکر نہیں کروں گی لیکن لندن فلیٹس اور پانامہ کمپنیوں کا جواب بہر حال در کا رہے کہ پوری قوم کی طرح میں بھی ان کے بارے میں جاننا چاہوں گی۔ یہ لوگ اگر کیلبری فونٹ میں دستاویزات پیش کرتے ہیں جو اُس وقت مارکیٹ میں آیا بھی نہیں تھا تو اگر پاکستان کی عدالت عظمیٰ اُن دستاویزات کو تسلیم کرلے تو پھر عوام اُسے عدالت عظمیٰ تسلیم کیسے کرے ۔جناب والا عوام اور عدالتیں آپ جتنی عالم نہ سہی کچھ تو جانتی ہیں یہ سارے آپ کے نمک خوار نہیں اپنی محنت سے کماتے ہیں خود بھی کھاتے ہیں آپ کو بھی کھلاتے ہیں اور آپ کی آنے والی نسلوں کے لیے بھی آپ کی تجوریاں بھرتے ہیں اس ملک کے بے چارے عوام۔ تیس سال سے وقتاََ فوقتاََ اور اکثر اوقات اِس ملک اور پنجاب پر تو اس سے بھی زیادہ عرصے سے آپ کا خاندان حکمران ہے ویسے اتنا لمبا عرصہ حکومت تو مغل بادشاہوں کا بھی نہیں ہوتا تھالیکن حالات ہمارے پھر بھی نہیں سنبھل رہے۔ جمہوریت کے نام پر جو جرم اور بادشاہت چند خاندان اس ملک پر حکمرانی کر کے کر رہے ہیں اتنا بھونڈا مذاق شاید دنیا کی تاریخ میں کوئی ہو، باپ کے بعد بیٹا یا بیٹی اور اب بڑے بھائی کے بعد چھوٹا بھائی، خدا نے کسی اور خاندان کو وہ خوبیاں دی ہی نہیں جو شریفوں، بھٹوؤں ، زرداریوں، شاہوں یا مخدوموں وغیرہ کو دی ہیں۔ عدالتوں سے درخواست ہے کہ اگر آپ نے کچھ بہتری کی طرف قدم اٹھائے ہیں تو پیچھے مت پلٹئے اس قوم پر رحم کریں ،اور عوام سے بھی التجا ہے کہ ’’اپنی خودی پہچان‘‘ یہ حکمران اور رہنما آپ کے ووٹوں اور نعروں سے حکمران اور رہنما بنتے ہیں ورنہ یقین کیجئے ابھی تک انہوں نے اپنی کسی خوبی اور خاصیت کی وجہ سے آپ پر حکومت نہیں کی بلکہ ناراض مت ہوئیے آپ کی حماقت کی بنا پر کی ہے لہٰذا آئندہ کے لیے اپنی قسمت کے مالک خود بنیے اپنی توانائیاں جلسوں کے سائز بڑھانے پر نہیں ملک کی قوت اور ترقی پر خرچ کیجئے تاکہ دنیا میں آپ باعزت مقام حاصل کر سکیں۔



via Pakistan News – Pakistan Views – Zameer36 Global Issues & World Politics http://ift.tt/2FdVjft

Comments